امپورٹڈ حکومت مسلسل انکاری ہے

 سمجھتی جارہی ہے جس سے نکلنا ممکن ہی نہیں اس کے دو ہی نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں ایک یہ کہ اپنے فیصلوں پر قائم رہتے ہوئے مسائل کا سامنا کیا جائے اور دوسرا یہ کہ سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے بیرون ملک پناہ حاصل کی جائے۔

بیرون ملک پناہ حاصل کرنا ایسے افراد کے لیے کبھی مشکل نہیں رہا کیوں کہ قومی خزانے کو بے دردی سے استعمال کرتے ہوئے بیرونی دنیا میں ذاتی جائیداد و کاروبار اتنا پھیلایا ہوا ہے کہ آنے والی کئ نسلوں کے لیے بھی ضرورت سے کہیں زیادہ تصور کیا جاسکتا ہے۔

ملک میں انارکی اور قوم میں ہیجانی کیفیت پائی جاتی ہے اس ہیجانی کیفیات کے عقب میں ایسی صورت حال کا سامنا ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں۔

حال ہی میں امپورٹڈ حکومت کی خواہش پر ایک پاکستانی وفد نے اسرائیل کا دورہ کیا جس کی تصدیق بذاتِ خود اسرائیلی وزیراعظم کو کرنے کی ضرورت پڑ گئ جبکہ امپورٹڈ حکومت اب تک اس سے انکاری ہے۔

اس سلسلے میں بین الاقوامی میڈیا نے جو تفصیلات شائع کیں ہیں وہ کچھ یوں ہیں۔

اس کے علاؤہ پی ٹی آئ کا اس سلسلے میں کیا مؤقف ہے وہ بھی درجہ ذیل ہے۔

اسرائیلی صدر نے پاکستانیوں کے وفد سے

 ملاقات کی تصدیق کر دی۔

وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے کسی سرکاری یا نیم سرکاری وفد نے اسرائیل کا دورہ نہیں کیا۔

اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے ​​تصدیق کی کہ دو ہفتے قبل جنوبی ایشیا کے ایک وفد نے اسرائیل میں ان سے ملاقات کی تھی اور اس وفد میں دو پاکستانی امریکی شہری بھی شامل تھے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم میں مذاکرات کے دوران اسرائیلی صدر نے پاکستانی وفد سے ملاقات کی تصدیق کی تاہم وفد کے ارکان کی شناخت ظاہر نہیں کی۔

ہرزوگ نے ​​کہا کہ دونوں پاکستانی شہری مستقل طور پر امریکہ میں مقیم تھے لیکن وہ “فخر پاکستانی” تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی وفد سے ملاقات بہت خوش آئند تھی اور انہیں خوشگوار حیرت ہوئی کیونکہ اس سے قبل کسی پاکستانی وفد نے اسرائیل کا دورہ نہیں کیا۔

اس سے قبل پاکستانی نژاد امریکی انیلہ احمد نے ٹوئٹر پر 12 مئی کو اسرائیلی صدر سے ملاقات کی تصویر شیئر کی تھی۔تصویر میں وہ اپنے والد قطب الدین احمد کی تحریک پاکستان اور قائد پر لکھی گئی کتاب پیش کر رہی ہیں۔ – اعظم اسرائیلی صدر کو۔

انیلہ احمد ایک سیاست دان، مصنفہ اور استاد ہیں اور امریکہ میں اپنے سماجی کاموں کے لیے شہرت رکھتی ہیں۔ اس کی ٹویٹ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس وفد کا حصہ تھی جس نے اسرائیلی صدر سے ملاقات کی تھی۔ اگرچہ فوری طور پر یہ واضح نہیں ہو سکا کہ پاکستانی وفد میں کون شامل تھا، تاہم انسانی حقوق کی سابق وزیر شیریں مزاری نے پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے اینکر وقار قریشی کو وفد میں شامل کیے جانے پر تنقید کی اور دعویٰ کیا کہ انہیں یہ دیکھ کر “حیران کن” لگا جب وہ پاکستانی وفد کے لیے کام کر رہے تھے۔ “حساس نوعیت کا” ریاستی ادارہ۔

انہوں نے سوال کیا کہ کس ملک کے احکامات فلسطین کے مسلمانوں کے حوالے سے نظریہ پاکستان اور اس کے بانی کے نظریے سے غداری کا باعث بنے؟

عمران خان کی حکومت میں یہ ممکن نہیں تھا اس لیے انہیں ہٹا دیا گیا۔ شریف، زرداری اور 

فضل الرحمان سب اس پلان کا حصہ ہیں۔

تحریر: مسعود حسین جعفری

Leave a Comment